اگر داستانیں لکھنے کا زمانہ ہوتا اور قبیلوں کا رواج تو یقناً پرویز محمود قبیلے کا ایسا سردار ہوتا جس کی داستانیں لکھی جاتیں، اور لکھنے والا اس شعر سے شروع کرتا
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارہ شباب ہو جس کا بے داغ ضرب ہو کاری
ڈاکٹر پرویز محمود سے میری بہت زیادہ ملاقات تو نہں رہی مگر جتنی بھی ہوئی دل جیتنے والی تھی۔ جو بھی اُن سے ملا، وہ ان کے گُن گاتا نظر آیا۔ ان کی محبت، مہمان نوازی جی داری، اور سب سے بڑھ کر ان کی دوست نوازی کا مرید ہو گیا۔ ان کے متعلق مشہور تھا کہ وہ دوستوں کے لیے پسینہ نہیں، اپنا خون بہانے کو بھی تیار رہتے ہیں۔ معلوم نہیں کیا جادو تھا ان کے پاس کہ جہاں ہوتے سردار کی طرح نظر آتے۔ سب سے منفرد، سب ان کے دیوانے، جس سے تعلق جوڑا پھر نہیں توڑا۔ کٹر مذہبی افراد سے لے کر سیکولر افراد تک، اُن کے حلقہ احباب میں تھے۔ ایک مرتبہ جو اُن کا یا وہ جس کے ہوجائیں تو پھر ساتھ ن� �یں چھوڑا۔ اگر کوئی دوست رات تین بجے بھی اُن کو آواز دیتا تو وہ اُس کی خاطر اپنی مقتل گاہ کی طرف دوڑے آئیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ان کا خاصا تھا کہ حلقہ یاراں میں ریشم کی طرح نرم نظر آنے والے پرویز محمود وقت پڑنے پر فولاد بن کے سامنے کھڑے ہوتے تھے۔
ڈی ایم سی سے فارغ ہونے کے بعد امریکہ آئے مگر سیلانی طبیعت کے مالک اور دنیا پرستی سے دور ڈاکٹر پرویز کا دل نہ لگا۔ دوستوں نے روکنا چاہا اور بہت اصرار کیا کہ یہاں رک کر جو چاہیں کرلیں، ہم ہر طرح سے مدد کریں گے۔ وہ تھے ہی ایسے کہ وہ لوگوں کے لیے اور لوگوں پر جان دیتے اور جواب میں اُن کو پیار، محبت اور عزت ملتی۔ قائدانہ صلاحیت کی وجہ سے ہمیشہ منفرد نظر رہے، مگر اپنے مستقبل کو نظرانداز کیا اور پاکستان واپس آگئے۔ پھر اپنے انداز میں جماعت کا کام شروع کیا۔ اُن کا مزاج بندھ کے رہنے والا نہیں تھا، اور جماعت اسلامی میں نظم کی جکڑ کچھ زیادہ ہے، لہٰذا وہ اپنے مزاج ک ے خلاف بھی کام کرتے۔ پھر بھی چھوٹی موٹی شکایت کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ ان کا مزاج مصلحت کا نہیں تھا، محبت باٹنے والے ڈاکٹر پرویز محمود پتھر کا جواب اینٹ سے دینے کے قائل تھے۔
ڈاکٹر پرویز محمود کسی اور جماعت میں ہوتے تو صف اوّل کے رہنماؤں میں شمار ہوتے۔ صرف بہادری و شجاعت ہی نہیں، اللہ نے انھیں مکمل سیاسی ذہن دیا تھا۔ تمام سیاسی جماعت کے رہنماؤں سے زبردست دوستی سوائے ایم کیو ایم کے، اور وہ بھی شاید اس لیے کہ اس زمانے میں ایم کیو ایم کی فسطائیت عروج پر تھی۔ اور وہ اُن لوگوں میں سے تھے جو پھانسی کے پھندے پر بھی سچ کے لیے ڈٹ جانے والے ہوتے ہیں۔ جس زمانے میں قائد کے غدار کے لیے موت کی سزا ہوا کرتی تھی، اُس زمانے کے سب سے بڑا باغی ڈاکٹر پرویز محمود شیہد تھے۔ آج جس وزیراعظم کا استقبال ایم کیو ایم نے کیا، تب اُن کا داخلہ بھی کراچی م� �ں بند تھا۔ پولیس افسران کی کیا حیثیت، فوجی افسران کی حالت بھی پتلی رہتی، یا پھر نورا کشتی تھی۔ آج وزیراعظم ہاؤس میں گھس کر باتھ روم میں داد شجاعت دینے والے، یا کسی پروگرام میں سیاستدانوں کی دھجیاں بکھیرنے والے صحافی اور ٹی وی مالکان، ہر کوئی کراچی کے ڈان کے آگے سجدہ ریز تھا۔ اس وقت ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے خلاف بات کرنا موت کو دعوت دینا تھا۔ ڈاکٹر پرویز محمود نے الطاف حسین کی فسطائیت کے خلاف آواز اٹھائی، اور بھرپور انداز میں، ایم کیو ایم کا ہر دشمن ان کا دوست تھا، چاہے وہ آفاق احمد ہوں یا ذوالفقار مرزا، یا پھر لیاری کے لوگ، یا پھر چوہدری اسلم۔ ا� � حوالے سے وہ جماعت اسلامی کی قیادت سے ناراض رہتے تھے کہ ایم کیو ایم کی طاقت کا جواب طاقت سے کیوں نہیں دیا جاتا۔
ایم کیو ایم کی فسطائیت کے خلاف آواز اٹھانے کے باوجود پرویز محمود کا رویہ سب سے ٹھیک ہوتا تھا۔ ان کی بہادری سے ان کے مخالفین بھی متاثر تھے، لہذا بعض اوقات ان کے اپنے اُوپر ہونے والے حملوں کی تیاری کی اطلاع دینے والے بھی ایم کیو ایم کے کارکنان ہوتے۔ اُن کو کئی مرتبہ وارنگ دی گئی کہ تمھارا وقت پورا ہوگیا، یا پولیس میں موجود اُن کے دوستوں نے کنفرم اطلاع دی کہ حملہ ہوگا، مگر وہ ایک مشہور جملہ دہراتے تھے کہ جو رات قبر میں ہے وہ میں باہر کیسے گزار سکتا ہوں۔ امریکہ میں موجود ان کے دوستوں نے واپس بلانے کی حتی الامکان کوشش کی، دوستوں نے مشورہ دیا کہ ملک نہیں تو شہر چھوڑ دو، مگر وہ پرویز بھائی کیا جو صرف خوف کی بنیاد پر اپنی بنیاد چھوڑ دیں۔
2001ء میں لیاقت آباد ٹاؤن کے ناظم بنے تو انتظامی صلاحیتوں کے سب ہی قائل ہوئے۔ بلدیہ میں ایم کیو ایم کے ہزاروں بھرتی کیے ہوئے کارکنان ساتھ نہیں دیتے تھے۔ ایک بزرگ بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب کو سخت سست کہا، جو شخص کسی سے دبتا تھا نہ ڈرتا تھا، اس نے خاموشی سے بزرگ کی ڈانٹ سُنی اور کہا چچا میرے ساتھ آفس میں چائے پی لیں۔ جب بزرگ ان کے آفس پہنچے تو وہاں 90 فیصد عملہ ایم کیو ایم کا تھا، انہوں نے بتایا کہ ان کو حُکم ہے، بالکل تعاون نہ کرو، مگر میں پھر بھی ان سے کام لیتا ہوں۔ ان حالات میں جتنا کرتا ہوں، بہت ہے۔ کروڑوں کما سکتے تھے مگر ڈاکٹر صاحب تو تھے ہی کسی ا ور مزاج کے، اس لیے اُن کی بہادری کو اور چار چاند لگ جاتے تھے۔ انسان بہادر اور بےخوف ہو، اُوپر سے ایماندار اور اللہ کا خوف رکھنے والا ہو، تو پھر وہ کچھ اور بن جاتا ہے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ بڑے سے بڑا بدمعاش بھی اُن سے ڈرتا تھا۔ ایک صاحب نے بتایا کہ کچھ لوگوں نے ایک قطعہ زمین پر قبصہ کر لیا اور ہتھیار ڈال کر بیٹھ گئے، بہت کوششوں کے باجود بھی قبضہ نہ چھوڑا۔ ان کے دل میں خیال آیا کہ ڈاکٹر پرویز محمود کو لے کر جاتا ہوں، ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی پرویز بھائی وہاں پہنچے، انھیں دیکھ کر قابضین نے کہا کہ پہلے بتاتے کہ آپ ڈاکٹر صاحب کے دوست ہیں۔
ڈاکٹر پرویز محمود لگی لپٹی یا منافقت سے بات نہیں کرتے تھے۔ جو دل میں ہوتا یا جو ان کی سوچ ہوتی تھی، اس کا اظہار کُھل کر کرتے تھے، اس لیے بہت سے افراد سوچ سمجھ کر ان کے سامنے منہ کھولتے تھے۔ ایک مرتبہ میں جب نیویارک سے پاکستان گیا تو ندیم نعمت اللہ بھائی اور انیق بھائی نے میرے اعزاز میں ایک دعوت رکھی، بہت بڑی محفل تھی۔ اس پروگرام میں اظہار خیال شروع ہوا تو دل رکھنے اور رسم دنیا نبھانے کے لیے میری تعریف شروع ہوگئی، جو میرے لیے شرمندگی کی بات تھی۔ جب پرویز بھائی کے بولنے کا وقت آیا تو انھوں نے کہا کہ میں تو سمجھ رہا تھا کہ معوذ کا انتقال ہوگیا ہے جو آج تعر� �ف ہو رہی ہے، پھر کہا کہ جو لوگ زندہ ہیں، ان کی قدر کرنا سیکھیں۔ بات تو ان کی سچ تھی۔ آج ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے جو ہمارے پاس ہیں، ورنہ پرویز بھائی کی طرح کوئی ہمارے پاس سے اٹھ کر چلا جائے گا اور ہم صرف ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ پرویز بھائی کو علم تھا کہ اُن پر حملہ ہوگا۔ اس کے لیے وہ ہر وقت تیار رہتے تھے اور ہر روز ایک نئی شان سے نکلتے تھے۔
جس شان سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
اللہ تعالی کا بھی کیا نظام ہے، جینے والا مر گیا اور جان دینے والا زندہ ہے۔
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں